مَیں سراپا خطا و فِسق و فجُور
معصیت کوشیوں کے نشّے میں چُور
میں کہ اک حسرتِ بریدہ پا
میں کہ اک التجائے نامنظور
میں کہ اک سازِ بے نفیرِ حیات
ابرِ بے آب و سعئ نامشکور
نخلِ بے سایہ و گُلِ بے رنگ
برگِ خشک و گیاہِ بے مقدور
تیرہ و تار خانۂ محزوں
دامنِ چاک و خاطرِ رنجور
نہ کسی باغ کا گُلِ خوش رنگ
نہ کسی انجمن کی آنکھ کا نُور
بے عمل ، بے شعور ، ناکارہ
بے کمالی میں دُور تک مشہور
عقل بے بہرۂ وجُود و شہود
فکر نا محرمِ غیاب و حضور
مَیں کہ ناواقفِ سلوکِ ادب
مَیں کیا بیگانۂ شرابِ شعور
بے بضاعت ، فقیرِ ہیچمداں
علمِ و عرفان و آگہی سے دور
نہ مجھے زعم خوشنوائی کا
نہ مرے سَر میں فکر و فن کا فتور
نہ رہ و رسمِ شاعری معلوم
نہ زبان و ادب پہ مجھکو عبُور
میں کہُوں نعتِ حضرت واؐلا؟
میں کروں ذکرِ سیّدِ جمہُور؟
میں اور اوصافِ خواجۂ گیہاں ؟
میں اور اندازۂ کمالِ حضور؟
نُور سے جن کے ہر جہاں روشن
ذکر سے جن کے لامکاں معمُور
جن کی گلیوں میں سر جھکائے ہوئے
پابرہنہ پھریں شہانِ غیور
ناز بردار جن کے زھرہ جبیں
زیرِ پا جن کے قیصر و فغفور
رازداں جن کا جبرائیلِ امیں ؑ
ریزہ خواروں میں شبؔلی و منصُؔور
عفو سے جن کے مستفید اعداء
جن کی شفقت سے بہرہ ور مقہور
جن کو کثرت عطا ہوئی حق سے
جن کی رحمت ہے بے حدود و ثغور
وہ کہ ہیں آرزوئے مشتاقاں
وہ کہ ہیں چارۂ دلِ مہجور
وہ کہ ہیں قدسیوں کی جاں کا سکوں
وہ کہ ہیں فرشیوں کے دل کا سُرور
وہ کہ ہیں نورِ دیدۂ افلاک
وہ کہ ہیں راحتِ قلوب و صدور
اُن کے لب سے کسی نے "لاَ" نہ سُنا
وہ کرم آپ کا ہے لَا محصور
جن کے دامن میں دولتِ کونین
جن کے قدموں میں دو جہاں کے نذور
حُسن ہے جن کا مہبطِ انوار
نطق ہے ترجمانِ ربِّ غفور
لوحِ محفوظ جن کی پیشانی
سب کی تقدیر ہے جہاں مسطور
جن کے رُخ سے ظہُورِ نُورِ قدیم
ہیں جو دانائے معنئ مستور
ہر ادا جن کی آیۂ قُرآں
ہر صدا جن کی زیست کا دستور
جن کا منصب محمّدؐ و احمد
جن کی تعریف ذاکر و مذکور
ذات ہے جن کی پیکرِ اسرار
ہیں جو مجمُوعۂ خفا و ظہُور
ماہ و پرویں ہیں جن کے حلقہ بگوش
انجمن جن کی ایک چشمۂ نُور
ہیں تصرّف میں جن کے لیل و نہار
جن کے زیرِ نگیں سنین و شہور
بزمِ امکاں میں جن ک دم سے فروغ
جن کی طلعت سے مسّنیر دہور
سب سے اَوّل حدوث کی صف میں
سب سے آخر ہوا اگرچہ ظہُور
اسی اقلیم کا خُدا ہے خُدا
آپ کی ذات جس کا ہے منشور
لبِ ادراک دم بخود ، خاموش
محوِ حیرت شعور و تحتِ شعُور
جن کے مدّاح انبیائے کرم
جن کا وصّاف آپ ربِّ غفور
جن کی مدحت سرائیوں کا صِلہ
باغِ فردوس اور نہ حُور و قصُور
کیا رقم ہو ثنائے ختمِ رُسلؐ
کیا فضائے بسیط ہو محصور
ہاں ، جو ہو مجھ کو نطق ارزانی
مجھ کو بھی گر عطا ہو لطفِ حضور
میں بھی کچھ عرضِ مدّعا کرلوں
بخشوالُوں سب اپنے جرم و قصور
اور کہوں ، اے خزینۂ رحمت
اے کرم گستر و کرم گنجور
اے سراپا عطاو رحمتِ کُل
اے خطا بخشِ بندۂ معذور
طَلبِ جاہ اور نہ حرصِ منال
ہَوسِ خُلد ہے نہ خواہشِ حُور
آپ کا ساتھ چاہتا ہوں میں
دائمی قرب چاہتا ہوں حضورؐ !
عرصۂ حشر ہو کہ باغِ اِرم
آپ کی مدح پر رہوں مامور
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی