کوئی عالم نہ کوئی صاحبِ عرفاں نِکلا

کوئی عالم نہ کوئی صاحبِ عرفاں نِکلا

ایک اُمّی ہی مگر صاحبِ قُرآں نِکلا


شاہِ افلاک ترے ذِکرِ مقدس کے بغیر

نا مُکمّل مرا افسانۂ اِیماں نِکلا


ہر نبی محرمِ اسرارِ الٰہی تھا مگر

کوئی تجھ سا نہ خود آگاہ و خداداں نِکلا


خُلد اور اِس قدر آسُودگی ، اللہ اللہ

سایۂ خُلد ترا سَایۂ داماں نِکلا


رُک گیا تھا جو کبھی آنکھ سے گِرتے گِرتے

آج وہ اشک علاجِ غمِ عصیاں نِکلا


یُوں تو ہر صنفِ سخن سے ہوں شناسا لیکن

ذکرِ احمدؐ ہی مری زیست کا ساماں نکلا


یہ جہاں اَور ہے ‘ وہ اَور جہاں ہے اعظؔم

جِس جہاں سے وہ مرا مہرِ درخشاں نِکلا

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

دستِ قدرت نے عجب صورت بنائی آپ کی

اپنی ہستی حباب کی سی ہے

جو بے وسیلۂ محبوبِؐ کبریا اُٹّھے

مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے

حبِ سر تاج رسولﷺ دل میں بسا کر دیکھو

اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

سُکوں ہے ہجر میں تاراج یا رسولَؐ اللہ

خُلد مری ‘ صرف اُس کی تمنا

آنکھیں ہوں تیری یاد میں نم اور زیادہ

بھول جائے، شہِ لولاک! دھڑکنا در پر