بھول جائے، شہِ لولاک! دھڑکنا در پر

بھول جائے، شہِ لولاک! دھڑکنا در پر

اس قدر کیجئے احسان دلِ مضطر پر


بھول کربھی نہیں آئے گی مصیبت در پر

نامِ سرکار کا رکھ لیجئے طغرا گھر پر


روزہم اُن کی عقیدت کے جلاتے ہیں چراغ

روشنی ہوتی ہے ہر روز ہمارے گھر پر


خواب میں بھی تومیسر نہیں پیزار ان کی

کاش مل جاتی اٹھا لیتے ہم اپنے سر پر


پھر درِ پاک کے پُر نور نظارے دیکھوں

پھر سے سرکار بلالیجئے اپنے در پر


تو نے دیکھا ہے انہیں شمس، بتا دے اتنا

کیا کبھی ٹھہری نظر تیری رخِ انور پر


کیوں شفیقؔ آپ طلب کرتےہیں جنت رب سے

ساری جنت تو ہیں قربان نبی کے در پر

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

شان مولا کی مُصطفےٰ جانے

بچی کُچی ہے جو یا رب وہ ایک سی گزرے

تیرے تے رئے گا کرم سرکار دا

مجھ کو بھی کاش جلوہء خضرا دکھائی دے

کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو

ہو چاہے اک زمانہ کسی رہنما کے ساتھ

سامنے ہیں سیّدِ ؐ ابرار اللہ الصمَد

فیضانِ محبت دنیا لئی منشور مدینے والے دا

سارے کا سارا حسن دمِ مصطفیٰؐ سے ہے

مانا کہ بے عمل ہُوں نہایت بُرا ہُوں مَیں