قصیدہ نور کا

ہے تِرے واسطے سب حمد و ثنا یا اللہ

تو بے مثل ایسا خدائے محمدﷺ

دل تمہاری دید کا جس دن سے خواہاں ہو گیا

مجھے اپنے در پہ بلا لیا وہ حسین روضہ دکھا دیا

کہیں ارضِ مدینہ کے علاوہ مِل نہیں سکتا

سامنے جب درِ اقدس ہو تو ایسا کرنا

روزِ محشر مصطفےٰ کے دستِ اطہر دیکھنا

جب نبی کا روئے انور قبر کو چمکائے گا

سوئی ہوئی تقدیر جگائیں مِرے آقا

لبہائے مصطفےٰ سے وہ مِل کر چمک اُٹھا

ہم نے جب احمدِ مختار کا روضہ دیکھا

اس سے ظاہر ہے مقام و مرتبہ سرکار کا

بے خوف، زمانے میں گنہگار ہے تیرا

بس درودوں کی ہی تکرار ہے میرے آقا

زہد چمکا نہ عمل کوئی ہمارا چمکا

کسی شب خواب میں ایسا شہِ ابرار ہو جاتا

مصطفےٰکے سر پہ سایہ دیکھتا ہی رہ گیا

کب ہوگی زیارت کب دن آئے گا محشر کا

اپنے آقا، اپنے ماویٰ، اپنے ملجا کے قریب

محشر کے روز بس اسی کردار کے سبب

ہو نہیں سکتا تھا اس سے اور کوئی بہتر جواب

نہیں ہے آپ کے جیسا سخی کہیں کوئی

شاہد ہیں دیکھ لیجئے قرآں کی آیتیں

خواب میں ہی سہی اُس رشکِ قمر کی صورت

گناہوں کے مریضوں کا شفا خانہ ہے یہ روضہ

لگتا ہے دور رہ کے درِ مصطفےٰ سے یوں

نبی کی نعت لبوں پر درود اور سلام

کون ہوں پہلے جان لے سورج

نعتِ پاکِ مصطفےٰﷺ کے واسطے درکار ہے

ہاں اگر تجھ کو حیاتِ جاودانی چاہئے