دل تمہاری دید کا جس دن سے خواہاں ہو گیا
سارا گلشن میری نظروں میں بیاباں ہو گیا
پڑ گئی جس پر شعاعِ روئے تابانِ رسول
ذرّۂِ ناچیز بھی مہرِ درخشاں ہو گیا
وہ سراپائے کرم ہیں میں ہوں محتاجِ کرم
یہ تعلق راحتِ دل، راحتِ جاں ہو گیا
مٹ گیا کفر و ضلالت کا اندھیرا دہر سے
مہر جب رشد و ہدایت کا درخشاں ہوگیا
بےخودی میں اُن کاجلوہ روبرو تھا خوب تھا
’’ہوش میں آنا حجابِ روئے جاناں ہوگیا ‘‘
جھلکیاں نورِ خدا کی تھیں نظر کے سامنے
جس نے دیکھا آپ کا جلوہ وہ حیراں ہوگیا
گِھر کے طوفاں میں پکارا جب اغثنی یا نبی
میری کشتی کا نگہباں خود ہی طوفاں ہوگیا
جب شبیہِ احمدِ مختار دِکھلائی گئی
نور برسا قبر میں ہر سو چراغاں ہو گیا
کام تھا دشوار میرے حق میں روضے کا طواف
یہ تو بس فیضِ تصور تھا کہ آساں ہو گیا
میرے ہونٹوں پر درودوں کا وظیفہ تھا شفیقؔ
غم پریشاں کرنے آیا خود پریشاں ہوگیا
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا