دل تمہاری دید کا جس دن سے خواہاں ہو گیا

دل تمہاری دید کا جس دن سے خواہاں ہو گیا

سارا گلشن میری نظروں میں بیاباں ہو گیا


پڑ گئی جس پر شعاعِ روئے تابانِ رسول

ذرّۂِ ناچیز بھی مہرِ درخشاں ہو گیا


وہ سراپائے کرم ہیں میں ہوں محتاجِ کرم

یہ تعلق راحتِ دل، راحتِ جاں ہو گیا


مٹ گیا کفر و ضلالت کا اندھیرا دہر سے

مہر جب رشد و ہدایت کا درخشاں ہوگیا


بےخودی میں اُن کاجلوہ روبرو تھا خوب تھا

’’ہوش میں آنا حجابِ روئے جاناں ہوگیا ‘‘


جھلکیاں نورِ خدا کی تھیں نظر کے سامنے

جس نے دیکھا آپ کا جلوہ وہ حیراں ہوگیا


گِھر کے طوفاں میں پکارا جب اغثنی یا نبی

میری کشتی کا نگہباں خود ہی طوفاں ہوگیا


جب شبیہِ احمدِ مختار دِکھلائی گئی

نور برسا قبر میں ہر سو چراغاں ہو گیا


کام تھا دشوار میرے حق میں روضے کا طواف

یہ تو بس فیضِ تصور تھا کہ آساں ہو گیا


میرے ہونٹوں پر درودوں کا وظیفہ تھا شفیقؔ

غم پریشاں کرنے آیا خود پریشاں ہوگیا

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

کرو دُور درداں کُوں سرکار آکے

ہُوک اٹھتی ہے جب بھی سینے سے

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

نبی کے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں

مجھ خطا کار سا انسان مدینے میں رہے

یوں تو ہے لب پہ رات دن شوق وصال مصطفیٰ

جس طرف چشمِ محمدّؐ کے اشارے ہوگئے

درِ نبی سے ہے وابسطہ نسبتیں اپنی

تری جس پہ ساقی نظر ہوگئی ہے

جامع الحسنات ہیں وہ ارفع الدرجات وہ