تری جس پہ ساقی نظر ہوگئی ہے

تری جس پہ ساقی نظر ہوگئی ہے

اسے دو جہاں کی خبر ہوگئی ہے


ملا ہے مری زندگی کو ٹھکانہ

تری ٹھوکروں میں بسر ہوگئی ہے


مجھے آستاں پر ہی رہنے دو ساقی

جبیں واقفِ سنگِ در ہوگئی ہے


اجالا ملا ہے مری شامِ غم کو

تری یاد آئی سحر ہوگئی ہے


مرا جام بھی مے کشو بھر گیا ہے

مری آنکھ بھی آج تر ہوگئی ہے


ظہوریؔ دعا میں وہ یاد آگئے ہیں

دعا ہمکنارِ اثر ہوگئی ہے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

طیبہ کی یاد جانے کہاں لے گئی مجھے

وہ منزلِ حیات ہے وہ جانِ انقلاب

سرورِ دین و شہنشاہ اُمم

حضور آ گئے مژدہ لیے شفاعت کا

ہر رفعتِ دُنیا مری سرکارؐ پہ واری

رہبرِ راہِ وفا تیرے گھرانے والے

معراج دی راتیں آقا نے جبریل نوں ایہہ فرمایا اے

جو بھی سرکار کا غلام ہُوا

بنا ہے بگڑا ہوا کام یا رسول ؐاللہ

اللہ اللہ ترا دربار رسولِ عَرَبی