تری جس پہ ساقی نظر ہوگئی ہے
اسے دو جہاں کی خبر ہوگئی ہے
ملا ہے مری زندگی کو ٹھکانہ
تری ٹھوکروں میں بسر ہوگئی ہے
مجھے آستاں پر ہی رہنے دو ساقی
جبیں واقفِ سنگِ در ہوگئی ہے
اجالا ملا ہے مری شامِ غم کو
تری یاد آئی سحر ہوگئی ہے
مرا جام بھی مے کشو بھر گیا ہے
مری آنکھ بھی آج تر ہوگئی ہے
ظہوریؔ دعا میں وہ یاد آگئے ہیں
دعا ہمکنارِ اثر ہوگئی ہے
شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری
کتاب کا نام :- نوائے ظہوری