حضور آ گئے مژدہ لیے شفاعت کا

حضور آ گئے مژدہ لیے شفاعت کا

ہر ایک چہرے کی فرحت ہے بارہویں تاریخ


پیامِ صبحِ مسرت ہے بارہویں تاریخ

نبی کا یومِ ولادت ہے بارہویں تاریخ


درِ نبی پہ اسی دن ہو حاضری کا شرف

ہمارے دل میں یہ حسرت ہے بارہویں تاریخ


جو تو نہ ہوتی تو دنیا میں کچھ نہیں ہوتا

یہ سب تری ہی بدولت ہے بارہویں تاریخ


شہِ انام کے میلاد کی علامت تو

تِری اسی لیے عظمت ہے بارہویں تاریخ


حضور آ گئے مژدہ لیے شفاعت کا

ہر ایک چہرے کی فرحت ہے بارہویں تاریخ


ہم آج پھر ہیں تِری رحمتوں کے سائے میں

ہماری اوج پہ قسمت ہے بارہویں تاریخ


زبانِ عاشقِ احمد پہ تیرے آنے پر

درودِ پاک کی کثرت ہے بارہویں تاریخ


غموں کی دھوپ سے ہم کو نجات دیتی ہے

سروں پہ چادرِ رحمت ہے بارہویں تاریخ


نبی کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے جیسے

سبھی مہینوں کی راحت ہے بارہویں تاریخ


برائے عاشقِ محبوبِ کردگار شفیقؔ

سکونِ قلب ہے راحت ہے بارہویں تاریخ

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جِگر کی ہے

نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی خواہش

قرآن ہے ، دیوان ہے ، قاری ہے ، مدحت خوان ہے

کملی والا نور اجالا لے کے رحمت دا دو شالہ

دیکھتی رہ گئیں سماں آنکھیں

حسنِ ازل کی جستجو لائی درِ رسولؐ پر

دیکھے ترا جلوہ تو تڑپ جائے نظر بھی

اُس رحمتِ عالم کی عطا سب کے لئے ہے

زمیں تا چرخ بریں فرشتے ہر اک نفس کو پکار آئے

مدینہ جو دل میں نہاں ہے تو کیا غم