حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی


ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی


مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں

جو شے ہے اِس میں وہ جنت میں بھی نہیں ملتی


جھلکتی ہے تیری اُمت کی آبرو اِس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں

شاعر کا نام :- علامہ اقبال

دیگر کلام

اَج سِک مِتراں

مصطفیٰ ذاتِ یکتا آپ ہیں

لوح بھی تو قلم بھی

صف بستہ تھے عرب

نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے

آیۂ کائنات کا معنیِ دیر یاب تُو

دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا ترا

تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق

میری پہچان ہے سیرت ان کی

اس قدر کون محبّت کا صِلہ دیتا ہے