حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی


ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی


مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں

جو شے ہے اِس میں وہ جنت میں بھی نہیں ملتی


جھلکتی ہے تیری اُمت کی آبرو اِس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں

شاعر کا نام :- علامہ اقبال

اک روز ہوگا جانا سرکار کی گلی میں

ناؤ تھی منجدھار میں تھا پُر خطر دریا کا پاٹ

زیست میں اپنی بہاراں کیجئے

کریم ! تیرے کرم کا چرچا

ایسا لگتا ہے مدینے جلد وہ بلوائیں گے

گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر

نظمِ معطر

کہیں بستی کہیں صحرا نہیں ہے

ذکرِ احمد اپنی عادت کیجئے

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں