تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق

تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق

تو نے انساں کے خیالوں میں لہو دوڑایا


سمٹ آیا ترے اک حرف صداقت میں وہ راز

فلسفوں نے جسے تاحدِ گماں الجھایا


راحتِ جاں ! ترے خورشیدِ محبت کا طلوع

دھوپ کے روپ میں ہے ابر کرم کا سایا


اپنے رفیقوں کے لئے پتھر بھی ڈھوئے آپ نے

اور دشمنوں کے حق میں مصروفِ دعا بھی آپ ہیں


ظلماتِ این و آں میں ہوں ، میں کب سے سرگرمِ سفر

اور اس سفر میں ، میری منزل کا پتہ بھی آپ ہیں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

دیگر کلام

صف بستہ تھے عرب

نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

آیۂ کائنات کا معنیِ دیر یاب تُو

دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا ترا

میری پہچان ہے سیرت ان کی

اس قدر کون محبّت کا صِلہ دیتا ہے

دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپ ہیں

خواب میں کاش کبھی ایسی بھی ساعت پاؤں

گنہ آلود چہرے اشک سے ڈھلوائے جاتے ہیں