ہم نے جب احمدِ مختار کا روضہ دیکھا

ہم نے جب احمدِ مختار کا روضہ دیکھا

ایسا محسوس ہوا عرشِ معلیٰ دیکھا


دھوپ دیکھی نہ کبھی پاؤں میں چھالا دیکھا

سر پہ سورج تھا مگر طیبہ میں سایہ دیکھا


جس نے سرکار کے اوصاف کا دریا دیکھا

بولا میں نے اسے ناپیدا کنارہ دیکھا


تو نے جبریل زمیں، عرش، زمانہ دیکھا

کیا کسی کو مِرے سرکار کے جیسا دیکھا؟


آگئی کھنچ کےنگاہوں میں اے رضواں جنت

ہم نے جب رحمتِ عالم کا وہ روضہ دیکھا


ڈھل گیاہےمِرے سرکار کی سیرت میں جو

گو وہ پتھر تھا مگر دنیا نے ہیرا دیکھا


اُنکی آنکھوں پہ ہوں قربان ہزاروں آنکھیں

جن کی آنکھوں نے شہنشاہ کا روضہ دیکھا


عشقِ سرکار کے دیپک کی کرامت دیکھی

تیز طوفاں میں بھی ہم نے اسے جلتا دیکھا


جب تصور میں چلے آئے رسولِ اکرم

دور تک ہم نے اجالا ہی اجالا دیکھا


اس کا دیدار بھی معراجِ نظر ہے ہم کو

جس نے سرکارِ دو عالم کا سراپا دیکھا


کیا دکھایا انہیں اللہ نے معراج کی شب

کیا بتاؤں مرے سرکار نے کیا کیا دیکھا


جب سے سانسوں میں بسی نامِ علی کی خوشبو

گلشن قلب کو ہم نے تر و تازہ دیکھا


رُت خزاں کی نہیں آتی کبھی طیبہ میں شفیقؔ

ہر گھڑی گلشنِ طیبہ کو مہکتا دیکھا

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

کیا مہکتے ہیں مہکنے والے

روضے دے چفیرے نیں غلاماں دیاں ٹولیاں

خوشی مناؤ خوشی مناؤ اے غم کے مارو

حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنی ہے

میرا دل اور مری جان مدینے والے

طہٰ دی شان والیا عرشاں تے جان والیا

ہم شہر مدینہ کی ہوا چھوڑ چلے ہیں

کاگا سب تن کھائیو

کیڈا سوہنا نام محمدؐ دا

تیری ہر اک ادا علی اکبر