کسی شب خواب میں ایسا شہِ ابرار ہو جاتا
مقدر جاگ جاتا آپ کا دیدار ہو جاتا
کہاں ایسی مِری قسمت کہاں ایسا مقدر ہے
کہ میں بھی شربتِ دیدار سے سرشار ہو جاتا
اگر وہ دیکھ لیتا اک نظر طیبہ کی گلیوں کو
تو گرویدہ یقیناََ مصر کا بازار ہو جاتا
مجھے بھی تاجداری مل گئی ہوتی مِرے آقا
مِرے سر جو تمہارا ذرۂِ پیزار ہوجاتا
دیارِ مصطفےٰ کی حاضری سے کارآمد ہے
وگرنہ زندگی کا یہ سفر بے کار ہوجاتا
عجب کیاتھاکہ طوفاں خود تمہیں لیتا حفاظت میں
نبی کا نام لے لیتے تو بیڑا پار ہوجاتا
چلا آیا ہے شاہِ دیں کے پیچھے پیچھے جنت میں
بھلا کیسے غلامِ مصطفےٰ فی النار ہو جاتا
تمنا ہے یہی دل میں شہنشاہِ مدینہ بس
شفیقِؔ بے نوا پھر حاضرِ دربار ہوجاتا
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا