چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

یوں لگا اپنے مقدر آسماں تک آ گئے


آپ کی رحمت نے بڑھ کر لے لیا آغوش میں

لے کے اپنی خواہشوں کو مہرباں تک آ گئے


ہر طرف ہے روشنی اور نور ہے پھیلا ہوا

آرزو تھی جس جہاں کی اُس جہاں تک آ گئے


پڑھ رہے ہیں پھول غنچے آپ پر ہر دم دُرود

مصطفیٰ کے لہلہاتے گلستاں تک آ گئے


آپ کا بچپن جہاں گزرا وہ ہے رشکِ جناں

بخت والے اس حلیمہ کے مکاں تک آ گئے


اپنی دنیا جگمگاتی ہے ستاروں کی طرح

ناز ہم بھی خوبصورت کہکشاں تک آ گئے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

وہ جو میثاق نبیوں سے باندھا گیا اس کا تھا مدعا خاتم الانبیاء

کملی والا نور اجالا لے کے رحمت دا دو شالہ

آیا مہ رمضان مبارک

شوقِ طیبہ میں بے قرار ہے دل

تجھ کو آنکھوں میں لیے جب مَیں یہ دُنیا دیکھوں

تم پہ سَلام ِ کِر دگار

پھر آنے لگیں شہر محبت کی ہوائیں

حبیبِ ربِ دو عالم کا نام چومتے ہیں

میرے دل دے اُجڑے گلشن وچ تیری یاد دے نال آبادی اے

تیریاں نے محفلاں سجائیاں میرے سوہنیا