صفیہ ناز

اے مرے خدا مرے مہرباں

مرے لب پہ ہے جو تری ثنا

یارب مرے حروف میں ایسا کمال ہو

اے کریم ناتواں پر تری رحمتوں کا سایہ

الہی ثنا خوانِ سرکار کر دے

لبِ ازل کی صدا لا الہ الا اللہ

چہک رہا ہے مرا مقدر

مرا وظیفہ مرا ذکر اور شعار درود

ہو گیا روشن جہاں ماہِ رسالت آگئے

پہلے درود پڑھ کے معطر زباں کرو

آج بارش ہو رہی ہے چرخ سے انوار کی

میرے آقا کی عطا کی بات ہی کچھ اور ہے

پھوٹی حرا سے نورِ نبوت کی روشنی

وہ زُلف عنبریں وہ سراپا خیال میں

ہر دعا میری خدایا پُر اثر ہوتی رہے

شہرِ بطحا سے محبت ہو گئی

یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے

ہے دعا ہر دم رہے وہ کوئے انور سامنے

فیضان کی بٹتی ہے خیرات مدینے میں

میں حمد پہلے بیان کر لوں تو نعت لکھ لوں

مبارک ہو محمد مصطفیٰ تشریف لے آئے

آقا ہیں انبیا کے جو سلطان بے مثال

مجھ پر شہِ عرب کا ہر دم کرم رہے

مجھے بلائیں مرے غم گسار اب کے برس

مرے جذبوں کو نسبت ہے فقط اسمِ محمد سے

ذرہ ذرہ زمیں کا درخشاں ہوا

ہواہے نعت کا روشن دیا مدینے سے

نبی نے بلایا ہے الحمد للہ

روشن ہو مرے دل میں دیا ان کی ولا کا

مچی ہے دھوم کہ نبیوں کے تاجور آئے