ہر دعا میری خدایا پُر اثر ہوتی رہے

ہر دعا میری خدایا پُر اثر ہوتی رہے

عشقِ احمد میں ہمیشہ آنکھ تر ہوتی رہے


پیش کرتی ہوں میں آقا آپ کو پیہم درود

کاش میری زندگی یونہی بسر ہوتی رہے


مدحتِ سرکار میں چلتا رہے میرا قلم

یہ عطا بھی آ پ کی شام و سحر ہوتی رہے


آپ کے وصفِ کریمی سے ہو یوں وابستگی

میں ادھر تڑپوں تو طیبہ میں خبر ہوتی رہے


محفلِ میلاد ہو اور نُور کی برسات ہو

بارشِ انوارِ رحمت میرے گھر ہوتی رہے


ہے تمنا نازکی در پر بلاتے ہی رہیں

اور میری حاضری پھر عمر بھر ہوتی رہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

پہلے درود پڑھ کے معطر زباں کرو

آج بارش ہو رہی ہے چرخ سے انوار کی

میرے آقا کی عطا کی بات ہی کچھ اور ہے

پھوٹی حرا سے نورِ نبوت کی روشنی

وہ زُلف عنبریں وہ سراپا خیال میں

شہرِ بطحا سے محبت ہو گئی

یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے

ہے دعا ہر دم رہے وہ کوئے انور سامنے

فیضان کی بٹتی ہے خیرات مدینے میں

میں حمد پہلے بیان کر لوں تو نعت لکھ لوں