میرے آقا کی عطا کی بات ہی کچھ اور ہے

میرے آقا کی عطا کی بات ہی کچھ اور ہے

لطفِ شاہِ انبیا کی بات ہی کچھ اور ہے


جان و دل کے واسطے تسکین کا سامان ہے

کوئے بطحا کی فضا کی بات ہی کچھ اور ہے


چوم کر آتی ہے جب یہ گنبد و مینار کو

مہکی مہکی اس ہوا کی بات ہی کچھ اور ہے


چاندبھی شرما رہا ہے ان کا چہرہ دیکھ کر

روئے انور کی ضیا کی بات ہی کچھ اور ہے


جان دیتے تھے عمر، صدیق و عثمان و علی

چار یاروں کی وفا کی بات ہی کچھ اور ہے


آرزو کی اور پھر مدحت کے غنچے کھل گئے

ناز تیری اس دعا کی بات ہی کچھ اور ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

چہک رہا ہے مرا مقدر

مرا وظیفہ مرا ذکر اور شعار درود

ہو گیا روشن جہاں ماہِ رسالت آگئے

پہلے درود پڑھ کے معطر زباں کرو

آج بارش ہو رہی ہے چرخ سے انوار کی

پھوٹی حرا سے نورِ نبوت کی روشنی

وہ زُلف عنبریں وہ سراپا خیال میں

ہر دعا میری خدایا پُر اثر ہوتی رہے

شہرِ بطحا سے محبت ہو گئی

یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے