مرا وظیفہ مرا ذکر اور شعار درود

مرا وظیفہ مرا ذکر اور شعار درود

میں پیش کرتی ہوں آقا کو بے شمار درود


اُگے ہیں مزرع جاں میں سلام کے پودے

ریاضِ زیست کی ہے دائمی بہار درود


کبھی جو رنج و الم بے بسی نے گھیرا ہے

نجات مل گئی بھیجا جو ایک بار درود


بلند ہوتے ہیں درجے کہ جب بھی ورد کریں

ہے مومنوں کی یہ معراج اور وقار درود


بغیر اس کے دعائیں ہیں بے اثر ساری

ہوئی قبول دعا جب بھی کیا حصار درود


اگر ہے ناز گماں تیرگی کا آنگن میں

تو جان و دل سے پڑھو ان پہ نُور بار درود

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

شبِ سیہ میں دیا جلایا مرے نبی نے

جس ویلے پاک محمد دا لب اتے نام آجاندا اے

اُس ذات پر صفات کی حُجتّ ہوئی تمام

یہ کس کا تذکرہ عرشِ عُلا تک

مجھ پر نگاہ لطف شد بحر و بر کی ہے

وقفِ ذکرِ شہِؐ حجاز رہوں

محبوب خدا دا، دو جگ تے میں راج نہ آکھاں تے کی آکھاں

ایتھے اوتھے کل جہانیں درد غماں نے گھیر لئی

خدا دیاں رحمتاں دا ہے خزانہ

دل شاد تے گھر اپنا توں آباد کری جا