روشن ہو مرے دل میں دیا ان کی ولا کا

روشن ہو مرے دل میں دیا ان کی ولا کا

ہونٹوں پہ مرے ذکر رہے صلِ علیٰ کا


مشغول رہے میرا قلم اُن کی عطا سے

آجائے سلیقہ بھی مجھے حمد وثنا کا


ہوں میرے مقدر میں بھی طیبہ کے شب وروز

عاجزپہ بڑا ہوگا یہ احسان خدا کا


خم ہونے لگا شکر کے سجدے میں فلک بھی

نظارہ جو دیکھا ترے نقشِ کفِ پا کا


حسرت ہے کہ مدحت کے پروتی رہوں موتی

تا زیست رہے سلسلہ یہ مجھ پہ عطا کا


انوار برستے ہیں جو سرکار کے در پر

ہو جائے عطا چھینٹا مجھے ایسی گھٹا کا


اے ناز تجھے آیا ہے طیبہ سے بلاوا

پیغام ملا آج تجھے بادِ صبا کا

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

سخن با آبرو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے

بخوفِ گردشِ دوراں اداس کیوں ہوگا

!دوجہاں میں مصطفی سا کون ہے؟ کوئی نہیں

مجھ کو محبوب خدا کے عشق کا آزار ہے

شبِ فرقت کٹے کیسے سحر ہو

یاالہٰی رحم فرما مصطفٰی کے واسطے

مشکلوں میں ہیں چشمِ کرم کیجئے

نور حضرتؐ کاجو طیبہ کے نظاروں میں نہ تھا

سعادت اب مدینے کی عطا ہو

سوہنے نوں عرش جھک کے رہند اسلاماں کردا