بس درودوں کی ہی تکرار ہے میرے آقا
یوں مزے میں دلِ بیمار ہے میرے آقا
ذرہ ذرہ وہاں ضو بار ہے میرے آقا
در ترا مرکزِ انوار ہے میرے آقا
دل مرا پھر مجھے بے چین کیے رہتا ہے
پھر مدینے کا طلبگار ہے میرے آقا
آپ کا اذن اگر ہو تو چلا آئے حضور
یہ غلام آپ کا تیار ہے میرے آقا
کون پوچھے گا وہاں کس کی بھلا چلتی ہے
حشر میں تو ہی مددگار ہے میرے آقا
چاند اتراتا ہوا پھرتا ہے سارے جگ میں
جو ترے در سے ضیا بار ہے میرے آقا
روشنی بھی تری رفتار سے آگے نہ بڑھی
تیری رفتار وہ رفتار ہے میرے آقا
جس سے کروا لیا کرتے ہیں ثنا آپ اپنی
یہ شفیقؔ ایسا قلم کار ہے میرے آقا
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا