خواب میں ہی سہی اُس رشکِ قمر کی صورت
کاش آجائے نظر نوری بشر کی صورت
دیکھ کر کعبہ میں پھر کعبے کا کعبہ دیکھوں
پھر نکل جائے خدا کوئی سفر کی صورت
گھر میں جس دن سے لگا نامِ نبی کا طغرا
پھر بلاؤں نے نہ دیکھی مرے گھر کی صورت
بے جھجک مانگ لے مختار ہیں میرے آقا
دیکھتا کیا ہے اگر اور مگر کی صورت
دیکھ پھر گنبدِ خضرا کے مقابل آیا
دیکھ پھر کیسی ہے پھیکی سی قمر کی صورت
یادِ سرکارِ دو عالم سے ہے نسبت ان کو
چند قطرے ہیں جو پلکوں پہ گہر کی صورت
تم اگر پڑھ کے نکل جائو شفیقؔ اُن پہ درود
دشت میں بھی نہ نظر آ ئے ضرر کی صورت
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا