مجھے اپنے در پہ بلا لیا وہ حسین روضہ دکھا دیا

مجھے اپنے در پہ بلا لیا وہ حسین روضہ دکھا دیا

مِرا غنچہ ءِ دلِ غمزدہ مِرے مصطفےٰ نے کِھلا دیا


جبیں سائی کے لیے میرا سر بہت اضطراب میں تھا مگر

درِ مصطفےٰ پہ جبینِ دل کو ادب سے میں نے جُھکا دیا


ابو جہل تو نے جو مشت میں تھا رکھا چھپا کے حضور سے

انہی کنکروں سے حضور نے کہا اور کلمہ پڑھادیا


ملے مجھکو بھی وہی میرے رب، مِرے دل کی بھی ہے یہی طلب

وہی عشقِ احمدِ مجتبیٰ جو رضا کے دل میں بسا دیا


میں حریمِ ناز سے دور تھا نہ سلیقہ تھا نہ شعور تھا

’’ تِری نعت گوئی نے اے رضاؔ مجھے نعت کہنا سکھا دیا‘‘


نہیں زندگی میں کوئی بھی غم ہے یہ لطفِ نعتِ شہِ اُمم

مِری مشکلیں جو عروج پر تھیں انہیں ٹھکانے لگا دیا


ہے یہ لطفِ سرورِ سروراں اے شفیقِؔ بے کس و ناتواں

تجھے اس سخی نے ہے جو دیا وہ تِری طلب سے سوا دیا

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

مدحت کے لئے لفظ مجھے دان کرو ہو

درِ رسولِؐ خدا ہے حضوریوں کا گھر

حضورؐ مجھ کو بھی بلوائیے خدا کے لئے

بس قلب وہ آباد ہے جس میں تمہاری یاد ہے

جے آقاؐ دی نظر ہو جاوے

قرآن دسدا اے بڑائی حضور ﷺ دی

جہاں میں ہیں آئے نبی اللہ اللہ

ہر کڑے وقت میں لب پہ یہی نام آئے گا

اے نقطۂِ سطوحِ جہاں ! اے مدارِ خلق

ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم