گناہوں کے مریضوں کا شفا خانہ ہے یہ روضہ

لگتا ہے دور رہ کے درِ مصطفےٰ سے یوں

جیسے گزر رہی ہو مِری زندگی عبث


سورج، ستارے، چاند، شفق، روشنی عبث

پائے رسول پاک کے آگے سبھی عبث


وہ ساعتیں جو یادِ نبی میں ہیں خوب ہیں

خالی جو ان کی یاد سے ہے وہ گھڑی عبث


جب سامنے ہے سیرتِ محبوبِ کبریا

پھر کیوں بھلا کسی کی کروں پیروی عبث


میری مراد آپ ہیں اے خلد کی بہار

کیوں آرزوئے خلد کروں یا نبی عبث


اس جلوہ بار گنبدِ خضریٰ کے سامنے

اے چودھویں کے چاند تری چاندنی عبث


لگتا ہے دور رہ کے درِ مصطفےٰ سے یوں

جیسے گزر رہی ہو مری زندگی عبث


عشقِ رسول پاک میں گزرے تو بات ہے

ورنہ یہ زندگی ہے عبث موت بھی عبث


نعتِ رسول ﷺ لکھتے رہیں گے شفیقؔ ہم

نعتِ نبی نہیں ہے تو پھر شاعری عبث

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

کام بگڑے بنا نہیں کرتے

ہو گیاں رو رو کے اکھّیاں لالی کملیؐ والیا

خدایا مصطفٰی سے تو ملا دینا حقیقت میں

قلب کو بارگہِ شاہ سے لف رکھتا ہوں

نعت میں کیسے کہوں ان کی رضا سے پہلے

راحتِ قلب و جاں رحمت بیکراں سرور مرسلان تو کہاں میں کہاں

!مجھ کو ترے کرم کا سہارا ہے اَے کریم

جانِ رحمت کے انوکھے وہ نیارے گیسو

شانِ رسالت ہم سے نہ پوچھو، پوچھو پوچھو قرآں سے

پہنچوں اگر میں روضۂ اَنور کے سامنے