خدایا مصطفٰی سے تو ملا دینا حقیقت میں

خدایا مصطفٰی سے تو ملا دینا حقیقت میں

غمِ فرقت مرے دل سے مٹا دینا حقیقت میں


جدائی کو میں سہ سہ کر نہ مر جاؤں کبھی مولا

مرے دل کے سبھی دکھڑے گھٹا دینا حقیقت میں


سلیقہ دے کوئی ایسا چلا جاؤں مدینے میں

لگا کر پر مدینے تک اڑا دینا حقیقت میں


معنبر جو ہوائیں تھیں کبھی فیضِ رسالت سے

مجھے اُس دور کی عنبر فضا دینا حقیقت میں


تمنا ہے مری یا رب کبھی جاؤں مدینے میں

کبھی تو سامنے خضرٰی بھی لا دینا حقیقت میں


خدایا مجھ کو راس آئیں بہاریں اُس زمانے کی

نبی کے ان غلاموں میں بٹھا دینا حقیقت میں


نبی کی پشت پر ابنِ علی جس شان سے بیٹھے

وہی منظر مجھے یا رب دکھا دینا حقیقت میں


ولی ہوتا انہیں تکتا کہاں بس میں ہے یہ قائم

سُلا کر مجھ کو خوابوں سے جگا دینا حقیقت میں

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

تارِ دل اپنی مدینے سے لگا بیٹھے ہیں

خیالوں میں شاہِ امم دیکھتے ہیں

نہ اِس جہاں میں نہ اُس جہاں میں

نگر نگر میں گھوم کر اے زائرو ضیا کرو

حسیں ہیں بہت اس زمیں آسماں پر

معطر معطر پسینہ ہے ان کا

کہا معراج پر آؤ شہِ ابرار بسم اللہ

’’حضور آپ کی سیرت کو جب امام کیا‘‘

درود چشم اور گوش پر کبھی صبا سے سن

کہیں پر عُود اور عنبر کہیں پر گُل بچھاتے ہیں