مانا کہ بے عمل ہُوں نہایت بُرا ہُوں مَیں

مانا کہ بے عمل ہُوں نہایت بُرا ہُوں مَیں

لیکن رسُولِ پاک کے دَر کا گدا ہُوں مَیں


میں تو تمھارے غم کا سزاوار ہی نہ تھا

یہ اُس کی دین ہے کہ اُسے بھا گیا ہُوں مَیں


جِس نے تری تلاش میں صَدیاں گذاردیں

وہ چشمِ آرزُو ہوں وہ حرفِ دعا ہُوں مَیں


تڑپا رہا ہے جَذبۂ بے اختیارِ دید

محسوس ہو رہا ہَے کہ یاد آرہا ہُوں مَیں


دامن بھی تار تار گریباں بھی تار تار

شاید حدِ جُنوں کے قریب آگیا ہُوں مَیں


انسانیت کو بخشی وہ توقیر آپ نے

ہر آدمی سمجھنے لگا ہَے خدا ہُوں مَیں


اعظؔم مری زبان کہاں اور کہاں وہ ذات

نام اپنا اُن کے ذکر سے چمکا رہا ہُوں مَیں

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

آپؐ کے بعد اور کیا چاہیں

لب پہ صلِ علیٰ کے ترانے

آبروئے زمین

لَحَد میں وہ صورت دکھائی گئی ہے

جن کو نبیؐ کی ذات کا عرفان مل گیا

ہیں فلک پر چاند تارے، سرورِ کونین سے

دَم بہ دَم بر ملا چاہتا ہُوں

وردِ لب اک نغمۂ حمدِ خدا رہنے دیا

انبیا کے سروَر و سردار پر لاکھوں سلام

کربلا والوں کا غم یاد آیا