نگاہِ رحمت اٹھی ہوئی ہے

نگاہِ رحمت اٹھی ہوئی ہے وہ سب کی بگڑی بنا رہے ہیں

کھلا ہوا ہے کریم کا در، بھرے خزانے لٹا رہے ہیں


فلک کا سینہ دمک رہا ہے زمیں کا گلشن مہک رہا ہے

چھڑے ہیں صلِ علیٰ کے نغمے حضور تشریف لارہے ہیں


نہ ان سا کوئی عظیم دیکھا، نہ ایسا درِ یتیم دیکھا

زمانہ ٹھکرا رہا ہے جن کو، انھیں وہ سینے لگا رہے ہیں


کرے گا یہ حشر بھی نظارا بنیں گے مشکل میں وہ سہارا

کریں گے سب انتظار ان کا، وہ آرہے ہیں وہ آرہے ہیں


بروزِ محشر بوقت پرسش مجھے جو دیکھا فرشتے بولے

اِدھر پریشان کیوں کھڑے ہو تمہیں تو آقا بُلا رہے ہیں


نبی کی توصیف اللہ اللہ کہ داد جبریل دے رہا ہے

ظہوری کیا خوش نصیب ہیں جو نبیﷺکی نعتیں سنا رہے ہیں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

منکر ختم نبوت! غرق ہو

اِک بار پھر کرم شہِ خیرُالانام ہو

مجھے بھی سرخابِ حرف کا پر ملا ہوا ہے

جن کو نبیؐ کی ذات کا عرفان مل گیا

چلّیے مدینے سارے چھڈ گھر بار دئیے

بیاں کیوں کر ثنائے مصطَفٰے ہو

تارِ ربابِ دل میں نبی کی ہیں مِدحتیں

بلا لو پھر مجھے اے شاہِ بحرو بَر مدینے میں

کھلے بوہے ویخ کے تیرے دوارے آگئے

بَہُت رنجیدہ و غمگین ہے دل یارسولَ اللہ