کہیں نہ دیکھا زمانے بھر میں

کہیں نہ دیکھا زمانے بھر میں جو کچھ مدینے میں آکے دیکھا

تجلیوں کا لگا ہے میلہ جِدھر نگاہیں اٹھا کر دیکھا


وہ دیکھو دیکھو سنہری جالی، اِدھر سوالی اُدھر سوالی

قریب سے جو بھی ان کے گذرا حضور نے مسکُرا کر دیکھا


عجیب لذّت ہے بیخودی کی، عجب کشش ہے درِ نبی کی

سُرور کیسا ہے کچھ نہ پوچھو لپٹ کے سینے لگا کے دیکھا


طواف روضے کا کر رہی ہیں یہاں وہاں اشکبارِ آنکھیں

ہے گونج صلِ علیٰ کی ہر سوُ جہاں، جہاں پہ بھی جاکے دیکھا


جہاں گئے ان کا ذکر چھیڑا جہاں رہے ان کی یاد آئی

نہ غم زمانے کے پاس آئے نبی کی نعتیں سُنا کے دیکھا


ظہوری جاگے نصیب تیرے بس اِک نگاہِ کرم کے صدقے

کہ بار بار اپنے در پہ تجھ کو تیرے نبی نے بُلا کے دیکھا

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو

صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی

بجز رحمت کوئی سہارا یا رسول اللہﷺ

رحمت دوجہاں حامی بیکساں

ہم بھی ان کے دیار جائیں گے

نگاہِ رحمت اٹھی ہوئی ہے

نصیب چمکے ہیں فرشیوں کے

ہر روز شبِ تنہائی میں

تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے

دو عالم کا امداد گار آ گیا ہے