جس نے دکھایا طیبہ و قبلہ تم ہی تو ہو

جس نے دکھایا طیبہ و قبلہ تم ہی تو ہو

جس میں نبی کو دیکھا وہ شیشہ تم ہی تو ہو


اَہلِ نظر کے تم ہی تو ہو مطمحِ نظر

اور اہلِ دِل کے دِل کی تمنا تم ہی تو ہو


تم وارثِ علومِ حبیبِ اِلٰہ ہو

اور ناصرِ شریعتِ بیضا تم ہی تو ہو


اس گلستانِ دِین کی تم ہی بہار ہو

اور بزمِ سنیت کا اُجالا تم ہی تو ہو


دیں کے نعیم ، مظہرِ شانِ معین ہو

کمزور و بے نوا کا سہارا تم ہی تو ہو


سب اَہلِ عقل صدرِ اَفاضل نہ کیوں کہیں

وہ سب ہیں خاتم ان کے نگینہ تم ہی تو ہو


ہے نجدیوں کے قلب میں آرا تمہاری ذات

اور سنیوں کی آنکھ کا تارا تم ہی تو ہو


تقریر جس کی قہر الٰہی عدو پہ ہے

اور اہل دیں پہ رحمتِ مولا تم ہی تو ہو


جس کا قلم کہ نیزۂ باطل شکن بنا

اور دینِ مصطفیٰ کا ہے پایہ تم ہی تو ہو


ہم سب تھے جہل کی شبِ تاریک میں پھنسے

شب جس سے کٹ گئی وہ سویرا تم ہی تو ہو


دل کی مراد آپ کی خوشنودیٔ مزاج

اور سالکِؔ فقیر کے منشا تم ہی تو ہو

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

راکب دوشِ شہنشاہِ امم

اصحابِ مصطفیٰؐ دے سب نور ونڈے تارے

وجہ تسکین دل و جان محمدؐ عربی

وارث میرا پیر

خوش ہوں نبیؐ کی آل کی اُلفت میں زندہ ہوں

بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر

اے اِمامُ الہدیٰ محب رسول

حجابِ عصمت

خوشا دِلے کے شود مُبتلائے مہر علی

بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنت کی