نظر میں رہتی ہے ہر دَم شکلِ نُورانی

نظر میں رہتی ہے ہر دَم شکلِ نُورانی

مِرے نصیب میں ہےعشقِ شاہِؒ جیلانی


نظر نظر میں توجّہ سے اُن کی، تابانی

ہمارے دل میں ہے روشن چراغِ عرفانی


دُعا یہ ہے کہ طفیلِ نگاہِ غوثِؒ ورٰی

اُٹھے نہ سجدہء ربُّ العُلیٰ سے پیشانی


بالا تّفاق ہیں سردار آپ ولیوں کے

جواب رکھتی نہیں آپ کی جہانبانی


یہ اُن کے لُطف نگاہِ کرم کا صدقہ ہے

مسّرتوں کی مِرے حق میں ہے فراوانی


قدم بڑھاؤ یہ پیرانِ پیرؒ کا در ہے

بِچھا ہُوا ہے پئے خَلق ، خوانِ رُوحانی


وہ ہیں خدا کے ، خدا اُن کا ہے ، خدا کی قسم

مِٹے گی اُن کے اشارے سے ہر پریشانی


وہ ذات ایسی ، قدم اولیا کی گردن پر

صفات ایسی فرشتوں کی جس پہ حیرانی


وہ رہنما ہیں وہ ہیں دستگیرِ خلقِ خدا

کرامتوں میں وہ یکتا کرم میں لاثانی


خدا کا شکر کہ ہیں مہرباں شہِؒ جیلاں

نصیؔر فکر کوئی ہے نہ اب پریشانی

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی

مینوں چڑھیا رنگ توحید دا

گھرانہ ہے یہ اُن کا ، یہ علی کے گھر کی چادر ہے

جن کے سینے میں ہے اکرام علی اکبر کا

ہاتھ پکڑا ہے تو تا حشر نبھانا یا غوث

کیا بتائے گا کوئی رِفعتِ بامِ حسنین

سن لو حدیثِ ختمِ رسل پیکرِ حشم

موسم گل ہے بہاروں کی نگہبانی ہے

پھر دل میں مرے آئی یاد شہ جیلانی

کون لا سکتا ہے دنیا میں مثالِ اہلِ بیت