سرزمینِ باولی فیضان ہی فیضان ہے

سرزمینِ باولی فیضان ہی فیضان ہے

میرے خواجہ خانِ عالمؒ کا نگر ذیشان ہے


مرکزِ انوار بحرِ عشق طورِ سالکاں

یہ درِ دولت تصوف آگہی عرفان ہے


بارگاہِ مصطفیؐ بس اک حوالہ آپ کا

بیعتِ ـعشقِ نبیؐ ہی آپ کا عنوان ہے


نقشبندی فیض کے ابرِ کرم اتنا برس

دل کی کھیتی لہلہا اُٹھے بہت ویران ہے


پست فہموں اور طلب گارانِ دنیا کو حضور

نسبتِ دربار دینا آپ کا احسان ہے


’’یہ رہے نازاں مری نسبت پہ مولا بخش دے ‘‘

آپ کہہ دیں روزِ محشر بس یہی ارمان ہے


کوئی کیا اندازہ کر سکتا ہے تیرے اوج کا

تیرے درویشوں پہ بھی چشمِ فلک حیران ہے


اے فنائے عشقِ آقاؐ اے بقا کے راہبرؐ

جو ترے قدموں میں آجائے وہی سلطان ہے


استقامت ہو درود و ذکر اور اخلاص میں

خادمینِ باولی کو بس یہی فرمان ہے


اِس شکیلِؔ نقشبندی پر عطائے خاص ہو

سائلِ در ہے تمہارا یہ بھی اِک درباں ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

تھا کربلا کا معرکہ پورے شباب پر

سلطانِ عرب معراج نسب اے ناصرِ ارض و سما مددے

میرے لب پہ رات دن ہے

اے نبیؐ کے اسد اے خدا کے اسد

یہ دل بھی حسینی ہے یہ جاں بھی حسینی ہے

وِردِ زباں ہے میرے وظیفہ علی علی

مُسّلَم ہے محمؐد سے وفا صدّیقِ اکبر کی

علی لج پال سوہنا ، سخی بے مثال سوہنا

وہ دوجہاں میں ہے واللہ سرفرازِ علی

مُجھ کو ہے میری جان سے پیارا علی علی