سُنے کون قصّہء دردِ دل ، مِرا غم گُسار چلا گیا

سُنے کون قصّہء دردِ دل ، مِرا غم گُسار چلا گیا

جسے آشناؤں کا پاس تھا ، وہ کرم شِعار چلا گیا


وہ سخن شناس ، وہ دُوربیں ، وہ گدا نواز ، وہ مَہ جبیں

وہ حسیں ، وہ بحرِ عُلومِ دِیں ، مِرا تاجدار چلا گیا


جسے نُورِ مہرِ علی کہیں ، وہی جس کا نام ہے مُحیِؒ دِیں

مجھے کیا خبر، کہاں لُوٹ کر ، وہ مِری بہار ، چلاگیا


وہی بزم ہے ،وہی دُھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے

ہے کمی تو بس اُسی چاند کی ، جو تہِ مزار چلا گیا


کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں کہ نہیں رہا کوئی قدراں

کہاں اب وہ شوق کی مَستیاں کہ وہ پُر وَقار چلاگیا


جسے میں سُناتا تھا دردِ دل ، وہ جو پُوچھتا تھا غمِ دُروں

وہ گدا نواز بچھڑ گیا ، وہ عطا شِعار چلا گیا


بہیں کیوں نصیؔر نہ اشکِ غم ، رہے کیوں نہ لب پہ مِرے فغاں

مجھے بے قرار وہ چھوڑ کر ،سرِ رہگزار ، چلا گیا

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

دلوں کے سہارے توآنکھوں کے تارے

جگ تم پر بلہار

کب تک رہیں محرومی قسمت کے حوالے

جمالِ مہرؒ سے دل جگمگانے آئے ہیں

یہی زندہ حقیقت ہے یہی سچ بات بابُو جیؒ

گھرانہ ہے یہ اُن کا ، یہ علی کے گھر کی چادر ہے

ضیاءُ الاولیا ہے آپ کی سرکار بابُو جیؒ!

شعر گوئی میں جُدا ہے طرزِ اظہارِ فریدؒ

از بزمِ فقر صدرِ طریقت شِعار رفت

نام ہے بوبکر پیارا اور لقب صدیق ہے