تاریخ ہے نگاہ نظارہ حسین ہے

تاریخ ہے نگاہ نظارہ حسین ہے

ہر صبح انقلاب کا تارہ حسین ہے


اس کے حضور جاتا ہے شہ رگ سے راستہ

بہتے ہوئے لہو کا کنارہ حسین ہے


منزل خدا کی ذات ہو یا ذات مصطفؐےٰ

اس چوک کا ہر ایک اشارہ حسین ہے


خون حسین گونجتا ہے ہر اذان میں

ہر خانہ خدا کا منارہ حسین ہے


دکھلا رہا ہے ، رہ نما سازوں کو راستہ

چارہ گروں کی فکر کا چارہ حسین ہے


تاج ملوکیت پہ ہیں ثبت اسکی ٹھوکریں

جمہوریت کا پہلا ادارہ حسین ہے


صدیوں سے پڑھ رہی ہیں مظفر محبتیں

اسلام ہے مدیر شمارہ حسین ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- میرے اچھے رسول

دیگر کلام

اے امیر المومنین اے پیشوائے متقّین

علم کے شہر کا دروازہ

بو تراب و شہ مرداں اسد اللہ علی

دکھائے ہجرت نبیؐ کو اپنے گھاؤ کربلا

دین حق بچ گیا قربانیِ جاں ایسی تھی

مظلوم جب بھی لڑتا ہے

فتح کیوں حاصل نہ ہوتی خون کو

اس قدر تیری حرارت مرے ایمان میں آئے

میری آنکھوں میں اس کا لہو آگیا

جہا ں بھی حق پر ، چلے گا خنجر