وادی رضا کی کوہ ہمالیہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے
جلوہ ہے نور ہے وہ سراپا رضا کا ہے
تصویر سنیت ہے کی چہرہ رضا کا ہے
جو اس نے لکھ دیا ہے سند ہے وہ دین میں
اہل قلم کی آبرو نقطہ رضا کا ہے
کس کی مجال ہے جو نظر بھی ملا سکے
دربار مصطفی میں ٹھکانہ رضا کا ہے
اگلوں نے تو لکھا بہت علم دین پر
جو کچھ ہے اس صدی میں وہ رضا کا ہے
دستار آ رہی ہے زمین پر جو سر اٹھے
کتنا بلند آج پھریرا رضا کا ہے
اس دور پر فتن میں نظر خوش عقیدگی
سرکار کا کرم ہے کہ وسیلہ رضا کا ہے
شاعر کا نام :- نامعلوم