یہی نسبت مری اک نسبتِ لافانی ہے

یہی نسبت مری اک نسبتِ لافانی ہے

دلِ آوارہ گدائے شہِ جیلانی ہے


خاکِ بغداد میں جلووں کی وہ ارزانی ہے

رشکِ مہتاب ہر اک ذرّے کی پیشانی ہے


تازگی گلشنِ عرفاں میں اسی نام سے ہے

گرم اسی ذکر سے ہر محفِل رُوحانی ہے


اک ہمی ہیں کہ نہ پہنچے ترے در پر اب تک

وائے تقدیر یہ کیا بے سر و سامانی ہے


شاہِ بغداد نے بخشی وہ گدائی اعظم

جس پہ سَو جاں سے فدا عظمتِ سُلطانی ہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

حُسین آپ نے اُمت کی آبرو رکھ لی

نہ گُل کی تمنّا نہ شوقِ چمن ہے

چرخِ رضا کے نیّرِ اعظم

اکھّاں اگوّں آج اوہ اکھیاں دا تارا ٹر گیا

کمال آپ کی ہمت خدیجۃ الکبریٰ

تاریخ اپنے زعم میں اک چال چل گئی

طلوعِ صبح کا عنوان ہے علی اکبر

میں سایہء طوبیٰ کی خنک رُت سے ہوں واقف

جہاں میں مصطفی کے لاڈلےتشریف لے آئے

شان کیا تیری خدا نے ہے بڑھائی خواجہ