کھلا بابِ توفیقِ مدح و ثنا ہے

کھلا بابِ توفیقِ مدح و ثنا ہے عطائے محمد عطائے خدا ہے

یہ نعتوں کا جھرنا سا جو پھوٹتا ہے عطائے محمد عطائے خدا ہے


دلوں میں محبت حبیبِ خدا کی لبوں پر ہے مدحت شہِ دوسرا کی

سروں پر جو رحمت کی چھائی گھٹا ہے عطائے محمد عطائے خدا ہے


ریاضِ مودّت کا منظر تو دیکھو سکوں ہی سکوں کی بہاریں کھلی ہیں

معطّر معطّر دلوں کی فضا ہے عطائے محمد عطائے خدا ہے


تمنّا دھڑکتی ہےجوحاضری کی دعاؤں میں رہتی ہےجو چاشنی سی

نظر میں جو منظر سہانا بسا ہے عطائے محمد عطائے خدا ہے


طلب بھی تڑپ بھی وہ آہیں بھی سب کی وہ حیرت میں ڈوبی نگاہیں بھی سب کی

جو فرقت کے ماروں کی آہ و بکا ہے عطائے محمد عطائے خدا ہے


درِ مصطفٰی کی ملی جو غلامی کٹی یا نبی یا نبی میں جوانی

لبوں پر ابھی تک وہی اِک صدا ہے عطائے محمد عطائے خدا ہے


میں نسلوں سے ہوں جو انہی کا فدائی، ہے آبا سے نسبت غلامی کی پائی

ظفر نسلِ نو بھی جو ان کی گدا ہے عطائے محمد عطائے خدا ہے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ و سلم

مِرا تو سب کچھ مِرا نبی ہے

دل تڑپنے لگا اشک بہنے لگے

اے امیرِ حرم! اے شفیعِ اُمم

ہونٹوں پہ مرے ذکرِ نبی ذکرِ خدا ہے

تم ہو شہِ دوسرا شاہِ عرب شاہِ دیں

رکھ لیں وہ جو در پر مجھے دربان وغیرہ

وجد میں آدم ہے اوجِ آدمیّت دیکھ کر

کرم تیرے دا نہ کوئی ٹھکانہ یا رسول اللہؐ

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں