آگئے آج زمانے میں زمانے والے
رُوحِ خوابیدۂ ہستی کو جگانے والے
زیست کی راہ سے کانٹؤں کو ہٹانے والے
تلخیاں عہدِ گذشتہ کی مٹانے والے
میکشوں کو مئے عِرفان پلانے والے
سرکشوں کو درِ خالق پہ جُھکانے والے
سِینۂ دہر سے دھو کر حَسَد و غم کا غُبار
بستیاں عشق و محبّت کی بسانے والے
جس کا کوئی نہ ہو غم خوار زمانے بھر میں
ایسے نادار کو سینے سے لگانے والے
غم کے مارے ہوئے مایوس خطا کاروں کو
اپنے دامانِ شفاعت میں چھپانے والے
اعظؔم اک آن میں بدلا مری تقدیر کا رنگ
آئے فِطرت کو جو آئینہ دکھانے والے
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی