دل نے روشن کیے ثناء کے چراغ

دل نے روشن کیے ثناء کے چراغ

تیرگی دور کی جلا کے چراغ


جل اُٹھے قصر مصطفی ٰ کے چراغ

دربدر ہو گئے ہوا کے چراغ


اب کوئی راہ بر نہیں درکار

مل گئے اُن کے نقش پا کے چراغ


ان کے اصحاب و اہل بیت کی خیر

بجھ نہ پائے کبھی وفا کے چراغ


خانقاہوں میں اب بھی روشن ہیں

اہل حق اہل مصطفیٰ کے چراغ


عمر بھر مرے ساتھ ساتھ رہے

حمدِ رب نعتِ مصطفیٰ کے چراغ


طاق مدحت میں جل رہے ہیں صبیح ؔ

گل نہ ہوں گے مری نوا کے چراغ

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

سایہ کیسا ہے نور کے پیچھے

کہاں زبانِ سخن ور، کہاں ثنائے حبیبؐ

ذکر کر سوہنے محبوب من ٹھار دا

بخت میرا جو محبت میں رسا ہو جائے

جتھے جتھے وی اُہدا نقش قدم ہندا اے

تسکینِ روح و قلب کا نغمہ ہے نعتِ پاک

کونین کے ہاتھوں میں مُحمّؐد کے عَلَم ہیں

نامِ خدا سے سلسلہ

اگر ہے عشق کا دعوٰی تو خوفِ امتحاں کیسا

دنیا دے ذرے ذرے تے اج عجب بہاراں آئیاں نے