آہ اب وقتِ رخصت ہے آیا

آہ اب وقتِ رخصت ہے آیا

الوداع آہ شاہِ مدینہ


صدمۂ ہِجر کیسے سہوں گا

الوداع آہ شاہِ مدینہ


بے قراری بڑھی جا رہی ہے

ہِجر کی اب گھڑی آ رہی ہے


دل ہوا جاتا ہے پارہ پارہ

الوداع آہ شاہِ مدینہ


کس طرح شوق سے میں چلا تھا

دل کا غُنچہ خوشی سے کِھلا تھا


آہ! اب چُھوٹتا ہے مدینہ

الوداع آہ شاہِ مدینہ


کُوئے جاناں کی رنگیں فَضاؤ!

اے معطَّر مُعَنبر ہواؤ!


لو سلام آخِری اب ہمارا

الوداع آہ شاہِ مدینہ


کاش! قسمت مِرا ساتھ دیتی

موت بھی یاوَری میری کرتی


جان قدموں پہ قربان کرتا

الوداع آہ شاہِ مدینہ


سوزِ الفت سے جلتا رہوں میں

عشق میں تیرے گُھلتا رہوں میں


چاہے دیوانہ سمجھے زمانہ

الوداع آہ شاہِ مدینہ


میں جہاں بھی رہوں میرے آقا

ہو نظر میں مدینے کا جلوہ


التجا میری مقبول فرما

الوداع آہ شاہِ مدینہ


کچھ نہ حُسنِ عمل کر سکا ہوں

نَذر چند اشک میں کر رہا ہوں


بس یِہی ہے مِرا کُل اَثاثہ

الوداع آہ شاہِ مدینہ


آنکھ سے اب ہوا خون جاری

روح پر بھی ہوا رنج طاری


جلد عطارؔ کو پھر بلانا

الوداع آہ شاہِ مدینہ

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

آیا ہے بُلاوا پِھر اِک بار مدینے کا

آہ! شاہِ بحر و بر! میں مدینہ چھوڑ آیا

آگئے ہیں مصطَفیٰ صلِّ علٰی خوش آمدید

آپ آقاؤں کے آقا آپ ہیں شاہِ اَنام

آپ کی نسبت اے نانائے حُسین

آج ہے جشنِ ولادت مرحبا یامصطَفٰے

آہ! ہر لمحہ گنَہ کی کثرت اور بھرمار ہے

آہ! مَدنی قافِلہ اب جا رہا ہے لَوٹ کر

آؤ مدنی قافِلے میں ہم کریں مل کر سفر

آج ہیں ہر جگہ عاشِقانِ رسول