الیاس عطار قادری

یامصطَفٰے عطا ہو اب اِذن، حاضِری کا

نصیب چمکے ہیں فرشیوں کے

تاجدارِ حرم اے شہنشاہِ دِیں

آمدِ مصطَفیٰ مرحبا مرحبا

آج طیبہ کا ہے سفر آقا

آیا ہے بُلاوا پِھر اِک بار مدینے کا

آہ! شاہِ بحر و بر! میں مدینہ چھوڑ آیا

آگئے ہیں مصطَفیٰ صلِّ علٰی خوش آمدید

آپ آقاؤں کے آقا آپ ہیں شاہِ اَنام

آپ کی نسبت اے نانائے حُسین

آہ اب وقتِ رخصت ہے آیا

آج ہے جشنِ ولادت مرحبا یامصطَفٰے

آہ! ہر لمحہ گنَہ کی کثرت اور بھرمار ہے

آہ! مَدنی قافِلہ اب جا رہا ہے لَوٹ کر

آؤ مدنی قافِلے میں ہم کریں مل کر سفر

آج ہیں ہر جگہ عاشِقانِ رسول

آہ! رَمضان اب جا رہا ہے

آخِری روزے ہیں دل غمناک مُضطَر جان ہے

اللہ! کوئی حج کا سبب اب تو بنا دے

اے کاش کہ آجائے عطارؔ مدینے میں

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں

اِذنِ طیبہ مُجھے سرکارِمدینہ دے دو

اِک بار پھر کرم شہِ خیرُالانام ہو

اے کاش! تصوُّر میں مدینے کی گلی ہو

اِلٰہی دِکھادے جمالِ مدینہ

اللہ اللہ ترا دربار رسولِ عَرَبی

افسوس! بہت دُور ہوں گلزارِ نبی سے

ایسا لگتا ہے مدینے جلد وہ بلوائیں گے

اے خاکِ مدینہ ! تِرا کہنا کیا ہے

اے کاش! شبِ تنہائی میں ، فُرقت کا اَلَم تڑپاتا رہے