اے کاش! تصوُّر میں مدینے کی گلی ہو

اے کاش! تصوُّر میں مدینے کی گلی ہو

اور یادِ محمد بھی مِرے دل میں بسی ہو


دو سوزِ بِلال آقا ملے درد رضا سا

سرکار عطا عشقِ اُوَیسِ قرنی ہو


اے کاش! میں بن جاؤں مدینے کا مسافِر

پھر روتی ہوئی طیبہ کو بارات چلی ہو


پھر رَحمتِ باری سے چلوں سُوئے مدینہ

اے کاش! مقدَّر سے مُیَسَّر وہ گھڑی ہو


جب آؤں مدینے میں تو ہو چاک گِرِیباں

آنکھوں سے برستی ہوئی اَشکوں کی جَھڑی ہو


اے کاش! مدینے میں مجھے موت یوں آئے

چوکھٹ پہ تری سر ہو مری روح چلی ہو


جب لے کے چلو گورِغَریباں کو جنازہ

کچھ خاک مدینے کی مِرے منہ پہ سجی ہو


جس وقت نکیرَین مِری قبر میں آئیں

اُس وَقت مِرے لب پہ سجی نعتِ نبی ہو


اللہ! کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں

اے دعوتِ اسلامی تِری دھوم مچی ہو


صَدقہ مِرے مرشِد کا کرو دُور بلائیں

ہو بِہتَرِی اُس میں جو بھی ارمانِ دلی ہو


اللہ کی رَحمت سے تو جنَّت ہی ملے گی

اے کاش! مَحَلَّے میں جگہ اُن کے ملی ہو


محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے

اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَبی ہو


عطارؔ ہمارا ہے سرِحَشر اِسے کاش!

دستِ شَہِ بطحا سے یِہی چِٹھّی ملی ہو

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

عاصیوں کو دَر تمہارا مِل گیا

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے

معصومیت کا ہالا بچپن مرے نبیؐ کا

کرم ہیں آپ نے مجھ کو بلایا یارسول اللہ

مصطفیٰ، شانِ قُدرت پہ لاکھوں سلام

کربلا والوں کا غم یاد آیا

آگیا ہے چین دل کو در تمھارا دیکھ کر

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

علیؑ تحریرِ نوری ہے علی مذکورِ مولیٰ ہے

اے عرب کے تاجدار، اہلاًوَّسَہلاًمرحبا