الہٰی روضۂ خیرالبشر پر میں اگر جاؤں

الہٰی روضۂ خیرالبشر پر میں اگر جاؤں

تو اک سجدہ کروں ایسا کہ آپے سے گزر جاؤں


نجاتِ آخرت کا اس قدر ساماں کر جاؤں

کہ طیبہ جاکے اک سجدہ کروں سجدے میں مرجاؤں


مدینے جانے والے سر کے بل جاتے ہیں جانے دو

مرے قسمت میں جو جانا تو بارنگِ دِگر جاؤں


اڑادوں سب سے پہلے طائر جاں اس طرف اپنا

سہارے سے اسی طائر کے پھر بے بال و پر جاؤں


کبھی روضے سے منبر تک کبھی منبر سے روضے تک

اِدھر جاؤں اُدھر جاؤں اسی حالت میں مرجاؤں


سگانِ کوچۂ دلدار کی پیہم بلائیں لوں

تماشا بن کے رہ جاؤں مدینے میں جدھر جاؤں


میں کچھ درِّ شفاعت لیکے لوٹوں چشمِ رحمت کے

جو دربارِ معالی میں کبھی باچشمِ تر جاؤں


تمہارے نام لیوا بےخطر جاتے ہیں محشر میں

اشارہ ہو اگر مجھکو تو میں بھی بے خطر جاؤں


توجہ ان کرم پرور نگاہوں کی جو ہوجائے

مرا ایماں سنور جائے میں ایماں سے سنور جاؤں


سمجھ کر کوچۂ جاناں میں جنت میں چلا آیا

کوئے جاناں تو طیبہ ہے میں جاؤں تو کدھر جاؤں


خلیؔل اب زاد راہِ آخرت کی سعی احسن میں

مدینے سر کے بل جاؤں وہاں پہنچوں تو مرجاؤں

شاعر کا نام :- مفتی خلیل احمد خلیل

دیگر کلام

زندگی دا مزا آوے سرکار دے بوہے تے

فلسفی! تجھ کو عبث دُھن ہے اُسے پانے کی

نہیں ہے کوئی دنیا میں ہمارا یا رسول اللہ

یا نبی نسخہ تسخیر کو میں جان گیا

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

پکارو یارسول اللہ یاحبیب اللہ

کوئی گل باقی رہے گا ،نہ چمن رہ جائے گا

آمدِ مصطَفیٰ مرحبا مرحبا

آج طیبہ کا ہے سفر آقا

آیا ہے بُلاوا پِھر اِک بار مدینے کا