کوئی گل باقی رہے گا ،نہ چمن رہ جائے گا

کوئی گل باقی رہے گا ،نہ چمن رہ جائے گا

پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا


نام شاہانے جہاں مٹ جایئں گے لیکن یہاں

حشر تک نامونشانے پنجتن رہ جائے گا


جو پڑھے گا صاحب لولاک کے اوپر درود

آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا


اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو

اس تن بےجان پر خاکی کفن رہ جائے گا


ہم صفیر وباغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا

بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا


سب فنا ہو جائیں گے کافی کو لیکن حشرتک

نعت حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

شاعر کا نام :- مولانا کفایت علی کافی

دیگر کلام

نہیں ہے کوئی دنیا میں ہمارا یا رسول اللہ

یا نبی نسخہ تسخیر کو میں جان گیا

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

الہٰی روضۂ خیرالبشر پر میں اگر جاؤں

پکارو یارسول اللہ یاحبیب اللہ

آمدِ مصطَفیٰ مرحبا مرحبا

آج طیبہ کا ہے سفر آقا

آیا ہے بُلاوا پِھر اِک بار مدینے کا

آہ! شاہِ بحر و بر! میں مدینہ چھوڑ آیا

آگئے ہیں مصطَفیٰ صلِّ علٰی خوش آمدید