آمنہ کے پالے نے دو جہاں کو پالا ہے

آمنہ کے پالے نے دو جہاں کو پالا ہے

تیری میری مشکلوں کو مصطفے نے ٹالا ہے


ذات ہے تو اعلیٰ ہے شان ہے تو بالا ہے

دوستو کرم ہی کرم کالی کملی والا ہے


فرش عرش دونوں جہاں نور سے ترے روشن

نور مصطفیٰ تیرا چار سو اجالا ہے


جام کو نہ دیکھیں گے جائیں گے نہ میخانے

ذکر مصطفیٰ تیرا کیف ہی نرالا ہے


ڈگمگا سکا ہے کبھی اور نہ ڈگمگائے گا

جس کو تیری رحمت نے یا نبی سنبھالا ہے


بھیجتا ہوں روز ان کو پھول میں درودوں کے

اپنی حاضری کا راستہ نکالا ہے


محو استراحت ہے تجھ پہ رحمتوں والا

شہر مصطفیٰ کس قدر تو نصیب والا ہے


میں کسی بھی تمغے کا بھوکا ہوں نہ مانگت ہوں

مرے ہاتھ عشق نبی کے موتیوں کی مالا ہے


کیوں نہ میں نیازی پڑھوں نعت مصطفے ہر دم

نعت مصطفیٰ کی قسم مجھے نعت نے ہی پالا ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

یا نبی سلام علیک

کس نے پھر چھیڑ دیا قصہ لیلائے حجاز

کب اپنے سر پہ اُنؐ کے کَرم کی رِدا نہیں؟

وہ جو شبنم کی پوشاک پہنے ہوئے

عاشق کو بھا سکے گی نہ رنگِ چمن کی بات

تو امیرِ حَرمُ مَیں فقیرِ عَجم

خواہشِ دید! کبھی حیطۂ ادراک میں آ

آج آگیا شاہ سلطاناں دا

تیری دہلیز جب نظر آئے

کونین کی سطوت کی نظر لے کے چلا ہوں