آرزو قلبِ مضطر کی یارو

آرزو قلبِ مضطر کی یارو! ان کے در کے سوا کچھ نہیں ہے

وہ نوازیں گے اک دن ہمیں بھی ان کی رحمت پہ کامل یقیں ہے


ایسی دوری پہ قربان جاؤں دور رہ کر بھی دوری نہیں ہے

یہ کرم بھی کرم در کرم ہے میں یہاں ہوں مرا دل وہیں ہے


ہر قدم کعبہء دل بنا ہے اور قبلہ نما ہو گیا ہے

شوقِ منزل میں پروازِ زائر مثلِ پروازِ روح الامیں ہے


رحمتِ عالمیں کے کرم سے اور قدوم شہ ذی حشم سے

پہلے وہ سر زمیں جو تھی یثرب اب مدینہ وہی سرزمیں ہے


اُن کی عظمت کو کیا کوئی سمجھے اُن کی رفعت کو کیا کوئی جانے

اُن کے در کی گدائی پہ نازاں سدرۃ المنتہیٰ کا مکیں ہے


منزلت ہو جو کیفِ طلب میں ہر قدم خود ہی بن جائے منزل

اُن کے دربار والا گوہر سے ہر جبینِ عقیدت قریں ہے


میں نے قرآن کی روشنی میں اور حسّان کی پیروی میں

جان و دل سے جو نعتیں کہی ہیں ان کا ایک ایک نقطہ نگیں ہے


کربلا والوں نے خونِ دل سے کچھ چراغ ایسے روشن کیے ہیں

آج بھی اے صبیحؔ ان کی ضو سے کتنا پُر نور دینِ مبیں ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

کاش دید رسول ہو جائے

شمس و قمر نجوم کی تنویر کچھ نہ تھی

ہم مدینے سے اللہ کیوں آگۓ

کملی والے دا سراپا نُور اے

زمیں کی ظلمتوں کو نور سے اپنے مٹایا ہے

کہو یانبیؐ بڑی شان سے

یہ زندگی کا الٰہی نظام ہو جائے

محبوبِ رب کہیں شہِ والا کہ کیا کہیں

دونوں ہاتھوں میں ہے اب آپؐ کا داماں آقاؐ

یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے