آستان حبیب خدا چاہئے
اور اس کے سوا مجھ کو کیا چاہیے
سبز گنبد کے جلوے رہیں سامنے
مجھ کو قلب و نظر کی ضیا چاہیے
گرمی ہجر کا ہوں ستایا ہوا
شہر بطحا کی ٹھنڈی ہوا چاہیے
سر کا سجدہ تو اپنی جگہ ہے مگر
دل مدینے کی جانب جھکا چاہیے
جس کے در کے ہیں محتاج شاہ و گدا
ایسے در کو نہیں چھوڑنا چاہیے
دن گزرتے گذر جائیں گے
یا نبی آپ کا آسرا چاہیے
کوئی مشکل جو سر پہ کبھی آ پڑے
لب پہ یا مصطفیٰ مصطفیٰ چاہیے
گرمی حشر نے جسم جھلسا دیئے
سایہ دامن مصطفیٰ چاہیے
انتہائے کرم ہے یہ سرکار کی
گر وہ پوچھیں بتا تجھ کو کیا چاہیے
نام لیوا نیازی بھی ہے آپ کا
اس گدا پر بھی نظر عطا چاہیے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی