بشر بھی ہے بشریت کا افتخار بھی ہے

بشر بھی ہے بشریت کا افتخار بھی ہے

رسول بھی ہے رسولوں کا شہریار بھی ہے


جو دیکھ کر تجھے پتھرا گئی تھیں پہلے پہل

وہ آنکھ آج ترے غم میں اشکبار بھی ہے


مجھے فلک کے مقدر پہ رشک کیوں آئے

مری زمیں پہ ترا در ترا دیار بھی ہے


میں مسکرا کے کئی غم خرید لیتا ہوں

میں جانتا ہوں کوئی میرا غم گسار بھی ہے


ترے اس ابرِ کرم کا ہے انتظار مجھے

جو برق ریز بھی ہے اور برفبار بھی ہے


مرا قلم ہی مرا پل صراط ہے اعظم

یہ میرے واسطے گل بھی ہے نوکِ خار بھی ہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

خدا کے دلارے خدائی کے پیارے

اوڑک نوں تے ٹر جانا کوئی کار تے کر کر جاواں

خالق نے اپنے پاس بُلایا حضور ؐ کو

ترے منگتے کی یہ پیہم صدا ہے یا رسولؐ اللہ

گل وچ سوہندی مدنی پی دی نسبت والی گانی ہو

میں صدقے نام محمد دے جس نام نوں لگدیاں دو میماں

عَجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں

رُکنا تو درِ ا حمد ِ مختا ر پہ رکنا

دو جگ دا سلطان کملی والا

روشن ہے دو عالم میں مہ رُوئے محمد