بشر بھی ہے بشریت کا افتخار بھی ہے
رسول بھی ہے رسولوں کا شہریار بھی ہے
جو دیکھ کر تجھے پتھرا گئی تھیں پہلے پہل
وہ آنکھ آج ترے غم میں اشکبار بھی ہے
مجھے فلک کے مقدر پہ رشک کیوں آئے
مری زمیں پہ ترا در ترا دیار بھی ہے
میں مسکرا کے کئی غم خرید لیتا ہوں
میں جانتا ہوں کوئی میرا غم گسار بھی ہے
ترے اس ابرِ کرم کا ہے انتظار مجھے
جو برق ریز بھی ہے اور برفبار بھی ہے
مرا قلم ہی مرا پل صراط ہے اعظم
یہ میرے واسطے گل بھی ہے نوکِ خار بھی ہے
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی