چادر سی جو نور کی تنی ہے

چادر سی جو نور کی تنی ہے

ماہِ اخضر کی چاندنی ہے


میں بابِ کرم تک آگیا ہوں

بگڑی ہوئی بات یوں بنی ہے


دامن ہے تہی تو غم نہیں ہے

الطاف سے ان کے دل غنی ہے


خاموش کھڑا ہوں ان کے در پر

کب میری کہانی گفتنی ہے


پرساں نہیں کوئی بھی جہاں میں

آقاؐ مرا حال دیدنی ہے


رکھ دیجیے اس پہ دستِ شفقت

دل میں مرے کرب کی انی ہے


اک تابشِ التفات ادھر بھی

گھر میں مرے تیرگی گھنی ہے


درکار ہے آپؐ کا سہارا

سر پنجہء زیست آہنی ہے


رحمت کی پناہ مجھ کو دیجیے

ہر سمت سے تیرافگنی ہے


محتاجِ نگاہِ خاص آقاؐ

تائب کی دریدہ دامنی ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

دونوں عَالم میں محمدؐ کا سَہارا مانگو

رسولِؐ عالمیاں، ذاتِ لم یزل کا حبیب

اُسے تو کُچھ بھی ملا نہیں ہے

سن سن کے گلاں یار دیاں اج ہویاں مست ہواواں نے

یانبی مجھ کو مدینے میں بُلانا باربار

جن کا لقب ہے مصطفیٰ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ

ناں کیوں روواں مدینے دے نظارے یاد آگئے نیں

تشریف لائی ذاتِ رسالت مآب آج

ہر دم یہی دُعا ہے میری ، مرے خُدا سے

کیا لطف ہے سخن کا اگر چشم تر نہ ہو