درود اُن پر محمد مصطفیٰ خیر الورا ہیں جو

درود اُن پر محمد مصطفیٰ خیر الورا ہیں جو

سلام اُن پر رسولِ مجتبیٰ نورِ خدا ہیں جو


درود اُن پر خدائے پاک کی جو خاص رحمت ہیں

سلام اُن پر جہانوں کے لیے لُطف و عطا ہیں جو


درود اُن پر کہ جِن کا نام تسکینِ دِل و جاں ہے

سلام اُن پر کہ ساری خلق کے حاجت روا ہیں جو


درود اُن پر کُھلے جن کے لیے در آسمانوں کے

سلام اُن پر مکینِ لامکاں شاہِ دنیٰ ہیں جو


درود اُن پر مُرادیں نُوح و آدم کو مِلیِں جِن سے

سلام اُن پر خدا کے فضل سے مشکل کشا ہیں جو


درود اُن پر شجر جن کے اِشارے سے چلے آئے

سلام اُن پر ہرن اور اُونٹ کا بھی مدّعا ہیں جو


درود اُن پر سلاطینِ زمانہ ہیں گدا جِن کے

سلام اُن پر کہ ہفت اِقلیم کے فرمانروا ہیں جو


درود اُن پر کہ جن کے نور سے روشن زمانہ ہے

سلام اُن پر کہ ذاتِ کبریا کا آئینہ ہیں جو


درود اُن پر شفاعت کا سجا ہے جن کے سر سہرا

سلام اُن پر کہ محشر میں ہمارا آسرا ہیں جو


درود اُن پر پڑھوں تو زندگی میری سنورتی ہے

سلام اُن پر جو بھیجوں دُور ہوں رنج و بلا ہیں جو


درود اُن پر کہ جن کی ہر ادا خود رب کو بھاتی ہے

سلام اُن پر پڑھو مرزا کہ محبوبِ خدا ہیں جو

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

منشا مرا بیانِ حیاتِ رسول بس

وہاں حضور کے خدّامِ آستاں جائیں

جہڑے دل اندر یاد سجن دی اوس دل نوں چین قرار کتھے

جو غلامِ شہِ ابرار ہُوا خوب ہُوا

صبح میلادالنبی ہے کیا سہانا نور ہے

قفسِ جسم سے چھٹتے ہی یہ پَرّاں ہوگا

مَیں پچھلے سال اِن دنوں شھرِ نبیؑ میں تھا

شیریں ہے مثلِ حرفِ دُعا نام آپؐ کا

سنہری جالی کی ضو فشانی

کیسے ہیں دو جہاں کے نبیؐ سوچتا رہوں