دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

مدحِ سرور دوا ہو گئی ہے


در ملے مہر و ماہِ حرا کا

ہر کسی کی دعا ہو گئی ہے


سائرِ لا مکاں کے کرم سے

روح دکھ سے رہا ہو گئی ہے


اس گلی سے کرم ہو رہا ہے

وہ گلی مدعا ہو گئی ہے


ہو گئے دل کے حاکم مکرم

راہ دل کی حرا ہو گئی ہے


اے دو عالم کے سلطاں کرم ہو

اس گدا کی صدا ہو گئی ہے


ماہِ کامل کا احساں ہوا ہے

مدحِ سرور عطا ہو گئی ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

اے خاکِ مدینہ ! تِرا کہنا کیا ہے

جان و دل سب شمار کرتے ہیں

گدا سارا عالم محمد دے در دا

رحمتِ عالم نور مجسم شمِع ہدایت کیا کہنے

کیوں دروازہ دیکھوں کسی سکندر کا

ان کی یادوں کا دیا دل میں جلائے رکھنا

روون دا مزہ آیا سرکار دے دَر اُتے

مدینے کا سفر ہے اور نگاہوں میں یہ حسرت ہے

کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اُجالا کیا ہے

کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلاف