فلک پہ دھومیں مچی ہوئی ہیں ملائکہ جھومے جا رہے ہیں
کہ مصطفیٰ اپنے رب کی دعوت پہ آج تشریف لا رہے ہیں
وہ ان کی شفقت بھری نگاہیں حیات نو کی نوید جن میں
وہ ان کا رحمت بھرا تبسم کہ عاصی تسکین پا رہے ہیں
وہ مالکِ کُل ہیں پھر بھی ان کی غذا وہی جَو کی آدھی روٹی
ہمیں قناعت کا درس دینے یہ ساری زحمت اٹھا رہے ہیں
امین و صادق خطاب والے خدا کی روشن کتاب والے
ضلالت و کفر کے اندھیرے میں شمعِ وحدت جلا رہے ہیں
اِدھر ہے پانی کی ایک چھاگل اُدھر ہیں پیاسے کئی صحابہ
وہ دیکھو سرکار انگلیوں سے یمِ کرامت بہا رہے ہیں
فرشتو ٹھہرو نہ یوں گھسیٹو میں ہوں غلامِ شہِ دو عالم
ردائے رحمت سنھبالے آقا وہ آرہے ہیں وہ آرہے ہیں
وہ بے سہاروں کا ہیں سہارا اسی لیے ہے انہیں پکارا
یقیں ہے ان کے کرم کا ہم کو تبھی تو بپتا سنا رہے ہیں
سراپا رحمت ہیں دشمنوں کو دعا ہدایت کی دے رہے ہیں
بقائے باہم کا سارے عالم کو فلسفہ وہ سکھا رہے ہیں
کھجور کی کھردری چٹائی ہے میرے سرکار کا بچھونا
زمانے بھر کو وہ سادگی کا سبق انوکھا سکھا رہے ہیں
کھلی ہے کھڑکی سرہانے والی، ہوائیں جنت کی آرہی ہیں
عقیدتِ مصطفیٰ کے صدقے کہ قبر میں لطف اٹھا رہے ہیں
نماز کی گنتی کم کرانا ہی ان کا مقصد نہیں ہے واللہ
یہ شوقِ دیدارِ رب ہے نظمی پلٹ پلٹ کر جو جارہے ہیں
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا