فقیر و صاحبِ ثروت تونگر دیکھ آئے ہیں

فقیر و صاحبِ ثروت تونگر دیکھ آئے ہیں

جنھیں رب نے بلایا رب کا وہ گھر دیکھ آئے ہیں


سعادت حج و عمرہ کی بڑوں کو ہی نہیں ملتی

کرم سے تیرے مفلس بھی ترا در دیکھ آئے ہیں


وسائل ہو کے جو طیبہ نہ دیکھے ہے و ہ بد قسمت

ہیں وہ خوش بخت جو شہرِ پیمبر دیکھ آئے ہیں


سکندر بھی گدا بن کر پھرا کرتے ہیں طیبہ میں

سنا ہے ان سے جو سرکار کا در دیکھ آئے ہیں


کچھ ایسے بھی ہیں عشاقِ نبیؐ جو پا پیادہ ہی

دیارِ ہند سے طیبہ کو جا کر دیکھ آئے ہیں


ہے گلزارِ ارم کا حسن پھیکا سامنے جن کے

وہ لالہ زارِطیبہ کے گلِ تر دیکھ آئے ہیں


چلو پلکیں بچھائیں راہ میں ان خوش نصیبوں کی

جو کعبے کی فضا، طیبہ کا منظر دیکھ آئے ہیں


سفر معراج کا جس گھر سے فرمایا تھا آقاؐ نے

یہ زائر اُمّ ہانی کا بھی وہ گھر دیکھ آئے ہیں


ملے توفیقِ حج ہم کو تو پھر ہم بھی کہیں احسؔن

جو چوما ہے نبیؐ نے ہم وہ پتھر دیکھ آئے ہیں

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

میری ہر ایک چیز ہے سرکار آپؐ کی

مَلاَءِ اعلٰی سے لے کر اِنس و جان تک

جیہڑے کر دے حضور دا میلاد رہن گے

مقدر سارے عالم کا تمہارے نام سے چمکا

ہے دونوں جلوہ گاہوں میں جلوہ حضور ﷺ کا

جمالِ مظہرِ نورِ خدا سیرت پیمبر کی

ہنجواں دیاں وگدیاں نہراں چوں اکھیاں نے طہارت کرلئی اے

درِ نبی پر پہنچ گیا ہوں

سوہنے نبی لج پال کریماں تیریاں دھماں چار چوفیرے

یہ دن رات آنکھیں یہ نَم کس لئے ہیں