فکر و فن حرفِ سخن نکتہ رسی مبہوت ہے

فکر و فن حرفِ سخن نکتہ رسی مبہوت ہے

روبروئے نعتِ سرور شاعری مبہوت ہے


لفظ ان کی شان کے لائق میسر ہی نہیں

ہندی اردو محوِ حیرت فارسی مبہوت ہے


تذکرہ شاید چھڑا ہوگا دیارِ نور کا

جنت الفردوس کی بارہ دری مبہوت ہے


کون گزرا ہے فضائیں مشکبو کرتا ہوا

شہرِ خوش تمثیل کی ہر اک گلی مبہوت ہے


واہ رزقِ خاکِ شہرِ نور ہونا ہے مجھے

زائرِ بطحا کی پلکوں پر نمی مبہوت ہے


نقشِ نعلینِ نبی کمرے میں آویزاں کیا

بام و در میں راج کرتی روشنی مبہوت ہے


ذکر ہے شاہِ مدینہ کے لب و رخسار کا

سر بہ خم ہیں نکہتیں اور تازگی مبہوت ہے


شان و شوکت دیکھ کر ادنیٰ گدائے شاہ کی

بادشاہانِ جہاں کی سروری مبہوت ہے


دیکھ کر تکریمِ شاہِ دوسرا معراج پر

کہکشائیں دنگ ہیں جبریل بھی مبہوت ہے


دو جہاں کی بادشاہت اور غذا نانِ جویں

چھال کے بستر پہ ساری سادگی مبہوت ہے


گفتگو اشفاق سن کر سرورِ کونین کی

نکتہ داں سکتے میں ہیں دیدہ وری مبہوت ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

جہان سارا تو پھر لے بھاویں

کیا ہوا آج کہ خوشبو سی ہوا میں ہے

اک نظر ایسی بھی مجھ پر مرے آقاؐ ہو جائے

اترے وہ اِس طرح مرے خواب و خیال میں

اپنے عملّاں اُتّے سنگاں

سب توں وڈی شان والا آ گیا

لپٹ کر سنگِ در سے خوب رو لوں

جگ سارا راضی اے جے راضی لج پال ہووے

یوں شان خدانے ہے بڑھائی ترے در کی

کبھی گُل رُو کے شانوں پر علی مولا عیاں دیکھے